Saturday, August 24, 2013

ہم اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے…محمد بن قاسم سندھ فتح کرکے کہاں گیا؟


محمد بن قاسم کے حوالے سے ہماری درسی کتابیں ہمیں بار بار یہ تو بتاتی ہیں کہ اُس نے سترہ سال کی چھوٹی سی عمر میں فوجی جرنیل کا عہدہ سنبھال کر سندھ پر حملہ کیا اور بڑی مہارت سے دیبل سے لے کر ملتان تک کا علاقہ تھوڑے سے عرصے میں فتح کر لیا۔ تاہم یہ کتابیں اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد کہاں گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے طلباء/نوجوانوں کو بھی میں نے کبھی یہ سوال اٹھاتے نہیں سنا۔ حالانکہ فطری سی بات ہے کہ بندے کو یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ آخر جس نوجوان نے سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کر لیا اُس نے باقی کی زندگی کیسے گزاری۔ کسی مشہور شخص کی پیدائش کا احوال معلوم نہ ہونا تو اتنی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص نے چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو تو اس کی موت کے حوالے سے کتابوں میں کوئی ذکر نہ ملنا یقیناً حیرت کی بات ہے۔
اسی تجسس نے لالاجی کو بے چین کر دیا اور لالا جی نے اس معاملے کو کریدنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جو چند باتیں مختلف ذرائع سے سامنے آئیں وہ پیش خدمت ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ محمد بن قاسم سندھ کی فتح کے بعد کچھ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہا۔ سترہ سال کی عمر میں سندھ پر حملہ کرنے نکلا۔ اُس زمانے میں سفر کی مشکلات اور طوالت کو سامنے رکھئے، پھر دیبل (موجودہ کراچی کے آس پاس کوئی جگہ) سے لیکر ملتان تک کی فتوحات میں لگ بھگ تین سال لگ گئے۔ تقریباً سارے ہی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن قاسم کی وفات بیس (۲۰) سال کی عمر میں ہوئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی موت میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے نہیں ہوئی۔ نہ ہی کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی۔ اگرچہ مورخٰین موت کے حوالے سے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں دیتے تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ محمد بن قاسم کی موت اپنے ہی حاکم کی طرف سے دی گئی سزا کے نتیجے میں واقع ہوئی۔
موت کیسے ہوئی ، حاکم کیوں ناراض ہوا، کیا سزا سنائی گئی…ان باتوں پر مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے دو بیانات ملتے ہیں:
1)      چھچھ نامہ سندھ کی تاریخ پر پہلی باقاعدہ کتاب سمجھی جاتی ہے۔ چھچھ نامہ میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے اور سندھ کے مختلف شہروں کے محاصرے، جنگوں اور فتوحات کی تفصیلات درج ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کے مطابق محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی موت اور اس کی فوج کو شکست دینے کے بعد مسلمانوں کے دستور کے مطابق مالِ غینمت اور راجہ کی بیوی اور بیٹیوں کو اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو بھجوا دیا۔ راجہ داہر کی بیٹیوں نے حجاج بن یوسف سے جھوٹ بولا کہ وہ خلیفہ کے لائق نہیں کیوں کہ محمد بن قاسم نے انہیں پہلے ہی استعمال کر لیا تھا۔ اس بات پر حجاج بہت ناراض ہوا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو بیل کی کھال میں بند کر کے واپس لے آؤ۔ اس کے حکم پر عمل کیا گیا تاہم بیل کی کھال میں دم گھُٹنے سے محمد بن قاسم کی راستے ہی میں موت واقع ہو گئی۔ بعد میں حجاج کو راجہ داہر کی بیٹیوں کا جھوٹ معلوم ہو گیا۔ انہوں نے محمد بن قاسم سے اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کے لئے یہ جھوٹ بولا تھا۔ حجاج نے ان لڑکیوں کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔
2)      أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري ایک مسلمان مورخ ہے جو خلیفہ المتوکل کے دربار تک رسائی رکھتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ابتدائی دور کی تاریخ کو قلم بند کیا ہے۔ البلاذري نے ایک کتاب لکھی تھی فتوح البلدان کے نام سے جس کا انگریزی ترجمہ فلپ کے ہِٹی(Philip K Hitti) نے ‘The Origins of the Islamic State’کے نام سے کیا ہے۔ البلاذري کے مطابق714ء میں حجاج کی موت کے بعد اُس کے بھائی سلیمان بن عبدالمالک نے حکومت سنبھالی۔ وہ حجاج بن یوسف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اُس نے عنان حکومت سنبھالتے ہی حجاج کے منظورِنظر افراد کو قید کروا دیا۔ محمد بن قاسم بھی حجاج بن یوسف کے پسندیدہ افراد میں گنا جاتا تھا(یاد رہے کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا داماد بھی تھا اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ بھانجا بھی تھا)۔ چنانچہ محمد بن قاسم کو بھی قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران میں ہونے والے تشدد کے نتیجے میں محمد بن قاسم کی موت واقع ہو گئی۔
محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے یہ باتیں قوم کے نونہالوں سے چھپا کر ہمارا محکمہ تعلیم کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اس کا تو پتہ نہیں۔ تاہم اپنے ماضی کے ناپسندیدہ واقعات کو چھُپایا تو جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔ جو قوم اپنی تاریخ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتی، وہ کبھی بھی پورے اعتماد سے دوسری قوموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کر سکتی۔

No comments:

Post a Comment